Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری( کمپلیٹ ناول)

قسط6

__________

موسم آج بہت خوشگوار تھا ہلکی ہلکی دھوپ تھی ٹھندی ٹھندی ہوائیں فضاء میں چل رہی تھی صبح کے گیارہ ہو رہے تھے اسکو آج یونی میں ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا تھا ۔۔ 

اس بیچ وہ وقت وقت پر اپنی لیے پارٹ ٹائم جوب بھی ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ اسکو جوب کی بہت ضرورت تھی ۔۔۔

وہ ابھی ابھی لیکچر لے کر آئی تھی اب اُسکا ارادہ گراؤنڈ میں بیٹھ کر اسائنمنٹ تیار کرنے کا تھا آج سارہ بھی یونی نہیں آئی تھی کیونکہ وہ اپنے کزن کی شادی میں لکھنئو گئی ہوئی تھی اور شائد تین چار دن اور نہ آئے ۔۔۔

بلیک اپڈاؤن قمیض پر لونگ اسکرٹ پہنے گلے میں مفلر ڈالے بالوں کا سمپل سا جڑا بنا رکھا تھا جن میں سے کچھ آوارہ بال آگے آتے اور وہ کوفت کے ملے جلے تاثرات سجائے انکو اپنی مخروطی انگلیوں سے پیچھے کو کر دیتی اور پھر سے اپنی اسائنمنٹ بنانے کے لیے جھک جاتی ۔۔

اسکو پندرہ منٹ سے زیادہ ہو گئے تھے ایسے ہی اس بیچ ایک بات بھی اُس نے ادھر اُدھر نظر نہیں ڈالی تھی۔۔۔

وہ بیٹھی اسائنمنٹ بنا رہی تھی جب شایان اُسکے پاس آتا دھڑام سے وہیں پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔

"ہائے خوبصورت گرل !! 
وہ اب اُسکی ایک بک کو اٹھاتے ہوئے اُسکے صفحہ پلٹتا ہوا بولا ۔۔۔

اُس نے ایک نظر اسکو دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔۔۔

" ویسے خوبصورت گرل ... تُم اتنا کیسے پڑھ لیتی ہو ؟ 

" مسٹر شایان !! پہلے تو میری مرضی میں پڑھائی کروں یا کچھ اور آپ ہوتے کون ہے مجھ سے سوال کرنے والے ؟ اور دوسری آپ نے کس خوشی میں مجھے تُم کہا ہے ؟ 

وہ گھورتے ہوئے اُس سے بولی چہرے سے کوفت خوب عیاں ہو رہی تھی۔۔۔

" یار ایک تو تُم لڑکیاں قسم سے مطلب بندے پر ایک سوال کا جواب دیا نہیں جاتا کہ دوسرا بھی پوچھ بیٹھتی ہو اُسکا انداز ایسا تھا کہ جيرش کہا تو سنجیدہ تھی اور اب اُسکی اس ڈرامائی انداز کو دیکھ کر اسکو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔۔

" پھر آپ لوگ کرتے ہی ایسا کام کیوں ہو ؟ اُس نے سنجیدہ تاثرات سجائے پوچھا ۔۔

"بسس کیا کریں؟ .. عادت سے مجبور ، نہیں نہیں.. !! بلکہ محبّت ہی اتنی ہے کہ چھوڑنے کو دل ہی نہیں چاہتا.. اُس نے ایک ڈائری کو اٹھاتے ہوئے کہا تھا جبکہ جيرش اسائنمنٹ پر جھکی ہوئی اُسکی بكواس سے بھرے لطیفے سن رہی تھی۔۔۔۔

وہ صفحہ کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا بلاشبہ بہت ہی خوبصورتی سے لکھا ہوا تھا ۔۔ صفحہ پلٹتا اور ایک نظر دل کر دوسرا کھول دیتا جب اُسکی ایک صفحہ پر انگلیاں ٹھہر سی گئی تھی ایک نظر سامنے بیٹھی جيرش پر ڈالی اور پھر ڈائری میں جو لکھا ہوا تھا اسکو پڑھنے لگا تھا یہ کوئی پوئیٹری تھی ۔۔۔۔

"مُشکلات ہی مشکل نہیں ہوتی 
جب اپنوں کے رویہ مشکل سے بڑھ کر لگنے لگاتے ہیں
یوں تو سب ہی خوش ہوتے ہے زندگی میں 
لیکن ظاہری خوشی بھی کوئی خوشی ہوتی ہے کیا __؟
کہنے کو سب اپنے ہے
لیکن دیکھا جائے تو خود کی پرچھائی بھی اپنی نہیں 
زندگی میں تحمّل بول دینا آسان ہے 
لیکن تحمّل کرنا مشکل 
ایسے ہی تحمّل نہیں آ جاتا 
ایسے ہی یہ عشق نہیں کہلاتا 
اسکے لیے تو قربانیاں دینی پڑتی ہے 
تبھی تو یہ راستہ تحمّل عشق کی منزل طے کرتا ہے
ازخود

"

ماشاللہ !! .. کافی اچھا لکھ لیتی ہو بھئی شایان نے ایک اور صفحہ کو پلٹنا چاہا تھا جب جيرش نے اُسکے ہاتھ سے ڈائری چھین لی تھی ۔۔۔۔

اور غصے سے اسکو دیکھتی چلّائی ۔۔۔

"کس سے پوچھ کر آپ میری چیزوں کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہے ہیں مینرز نام کی کوئی شے ہے بھی کہ نہیں آپ میں ؟ ... آئندہ میرے سامان کو ہاتھ بھی مت لگانا ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا اینڈرسٹیند ؟.....

وہ انگلی سے اسکو وارن کرتی اپنا سامان غصے سے بھرنے لگی تھی آواز اتنی تیز تھی کہ اس پاس کے سٹوڈنٹ بھی اسکی آواز کو سن کر وہاں اکھٹا ہو گئے تھے۔۔۔

" ارے اس میں اتنا غصّہ ہونے کی کیا بات ہے ایک ہی .... ابھی اُسکی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی جب جيرش نے اُسکی بات کو کاٹتے ہوئے بولی دیا ۔۔۔

"مطلب کسی کے بھی سامان کے ساتھ چھیڑ خانی کر لو چاہے پھر وہ سامان پرسنل ہی کیوں نہ ہو؟ اور بندہ غصّہ بھی نہ کریں ..... اب وہ باقاعدہ بہت ہی زیادہ غصے میں نظر آ رہی تھی۔۔۔۔

یونی کے سارے سٹوڈنٹ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے بلکہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔

______________________________________

میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کا ایک لڑکا جس کا اس یونی میں دوسرا سال تھا وہ اُن تینوں کو بہت اچھے سے جانتا تھا یہ تینوں ہی تو تھے جنہوں نے اُسکی خوب ہیلپ کی تھی 

جب اُس نے شایان کے اوپر کسی لڑکی کو بھڑکتے دیکھا تو وہ سرپٹ سمعان کی کلاس روم کی طرف بھاگتا ہوا گیا تھا۔۔۔۔

سمعان کچھ نوٹس تیار کر رہا تھا جب اُسکے پاس کریم بھاگتا ہوا آیا تھا ۔۔۔۔ 

سمعان نے نوٹس پر سے نظر ہٹا کر کریم کو دیکھا اور پریشانی سے کھڑا ہوتے ہوئے پوچھا

" کریم تُم یہاں خیر تو ہے سب اور تم ؟ وہ کچھ بولتا جب کریم اٹک اٹک کر اُکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ درمیان میں ہی بولا ۔۔

" بھائی بھائی !! اُسکی سانسیں اٹھل پٹھل ہو رہی تھی بھاگنے کی وجہ سے... اسکو بولنے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔۔۔

" کیا ہوا کریم !! ایسے اسکو دیکھا تو سمعان نے پریشانی سے اسکو دیکھتے پوچھا ۔۔۔

ب بھائی ! و وہ شایان .. بھائی .. ؟ وہ زور زور سے سانسیں لینے لگا ۔۔۔۔۔

" ریلیکس کریم اچھا پہلے پانی پیو پھر بتانا .. سمعان نے اسکو ریلیکس کرنے کا بولتے ہوئے پانی کی بوتل پکڑائی تھی۔۔۔۔

کریم نے بوتل کو لے کر ایک ہی سانس میں پانی پیا اور لمبی سانس کھینچ کر تھینک یو بولتے ہوئے بوتل سمعان کو واپس پکڑائی تھی۔۔۔۔

سمعان بوتل کو ایک طرف رکھ کر پوری طرح متوجہ ہوا اور بولا۔۔۔

"ہممم اب بولو کیا ہوا ایسے کیوں ہامپ رہے تھے ؟

بھائی ...... !! شایان بھائی کے اوپر کوئی لڑکی بہت بڑی طرح چلّا رہی ہے اور ساری یونی کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہے 

اُس نے بتایا تو سمعان جلدی سے گراؤنڈ میں گیا تھا۔۔

سامنے اور کوئی نہیں بلکہ سارہ کی فرینڈ جيرش تھی۔۔۔۔

اسکو دیکھ کر وہ سب کچھ ہی تو بھول گیا تھا آس پاس کچھ بھی اُسکے علاوہ اُسکی نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔

کئی لمحہ تک وہ اسکو دیکھتا رہا پھر ایک دم ہی جيرش کی چلاتی آواز پر وہ اپنی حقیقی دنیا میں واپس آیا تھا اور یوں اُسکی جان سے پیارے دوست جیسے بھائی پر چلاتے ہوئے دیکھا تو اُسکی آخری بات کو سن کر اُسکو غصّہ ہی تو آ گیا tha

اوہ مس !! جب سامان پرسنل تھا تو گھر پر رکھنا تھا یہاں کھلے عام کیوں لے کر منڈرا رہی ہو ... کرخت لہذے میں بولتا سب کو اپنی طرف متوجہ کر گیا تھا ، اُسکے چہرے سے غصّہ جھلک رہا تھا سب ہی اُسکے غصے سے واقف بھی تھے ..اب سب کا دھیان سمعان احمد پر تھا۔۔۔

اس آواز پر وہ پلٹی اور سامنے کھڑے اس مغرور شخص کو دیکھتی ہی رہ گئی تھی گرے رنگ کی شرٹ اور بلیک رنگ کی جینز پہنے بالوں کو سیٹ کیے ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں وہ یہاں کے سب لڑکوں میں بہت الگ سا سبكو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر رہا تھا کم از کم جيرش کو تو یہ ہی لگا کیونکہ جب وہیں اس شخص کو دیکھ کر اُسکی شخصیت میں جکڑ جاتی تھی ۔۔۔

دونوں کی نظریں ٹکرائی اور سمعان احمد کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی ۔۔۔۔

وہ کچھ نہیں بولی تھی بلکہ اس شخص کے سامنے اُسکی ہمّت ہی نہیں ہوئی بولنے کی وہ خاموشی سے اپنا سامان اٹھاتی وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔۔

اور سمعان احمد کی نظروں نے اُسکا دور دور تک پیچھا کیا تھا۔۔۔۔ 

جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تو وہ سب کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔

" یہاں کوئی فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہے کیا ؟ جو آپ سب یہاں کھڑے اسکو دیکھ رہے ہیں ... اُسنے سب کو گھورتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔

اُسکا یہ بولنا تھا کہ سب اپنے اپنے کام پر لگ گئے تھے ۔۔۔

وہ بھی اب شایان کی طرف متوجہ ہوا جو کھڑا ہوا دانتوں کی نمائش کر رہا تھا۔۔۔۔۔

" بند کر اپنے یہ کیڑے لگے دانتوں کی نمائش کرنا ... اور یہ بتہ تونے اسکو کیا کہا تھا ؟ جو وہ یوں بھڑک رہی تھی تُجھ پر ۔۔۔۔

وہ غصّے سے اسکو ایسے گھور رہا تھا جیسے ابھی اسکو کچّا چبا جائے گا۔۔۔۔۔

"یار ایسے مت گھور پلیز مجھے بہت شرم آ رہی ہے ، وہ چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپاتا ہوا بولا جبکہ سمعان کا تو پیارا ہی ہائی ہو گیا تھا۔۔۔

"تُجھ سے کیا پوچھ رہا ہوں میں ایک بار کی سمجھ نہیں آتی ہے کیا وہ چلاتے ہوئے بولا غصّہ اتنا تھا اسکو کہ ابھی شوٹ کر دیں ... 

زندگی میں یہ پہلی بار تھا جو سمعان احمد شایان خان پر چلّایا تھا ایسا کبھی نہیں ہوا تھا پھر بات کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو ...... 

"اتنا غصّہ کیوں ہوتا ہے یار !! شایان ابھی بھی اسکو مذاق میں لے رہا تھا۔ 

"تُجھے ایک بار کی سمجھ نہیں آتی کیا ؟ کیا پوچھ رہا ہوں میں تُجھ سے کہ وہ تُجھ پر چلّا کیوں رہی تھی۔؟ 

" یار چھوڑ نہ کوئی ایسی بات وہ کُچّھ بولتا کہ سمعان کا ہاتھ اٹھا اور شایان کے چہرے پر لگا ۔۔

چٹاخ خ خ ...... !!! 

آئندہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے وہ بولتا وہاں سے غصے سے تن فن کرتا چلا گیا تھا 

اور شایان !!

شایان تو بسس اسکو دیکھتا گالوں پہ ہاتھ رکھیں کئی لمحوں تک یوں ہی کھڑا رہ گیا تھا ۔۔۔

آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے ۔۔۔

اسکو اب جیرش سے نفرت محسوس ہونے لگی تھی شایان خان پہلی بار کسی چیز کو سنجیدگی اور دماغ سے سوچ کر کوئی فیصلہ کر چکا تھا ۔۔۔

" کیا چل رہا تھا شایان کے دماغ میں ؟ وہ کیا کرنے والا تھا آخر ؟ 

______________________________________

وہ کوئی بھی لیکچر لیے بغیر گھر آ گئی تھی اسکو اب خود پر بہت غصّہ آ رہا تھا کہ کیوں اُس نے شایان کو بُرا بھلا کہہ ڈالا اب اسکو پچھتانا ہو رہا تھا اور کہیں نہ کہیں وہ خوف زدہ بھی تھی ۔۔۔

پورا دن ہو گیا تھا اُسکی یوں ہی وہ پریشانی سے گھری ادھر سے ادھر چکّر کاٹ رہی تھی کسی بھی چیز میں اُسکا دل نہیں لگ رہا تھا ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا اُسکے ساتھ ایسا رویہ تو اُس نے کبھی اختیار نہیں کیا تھا جو آج شایان کے ساتھ کر گئی تھی۔۔۔

" اُسکا دل اب بہت گھبرانے لگا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ بہت بُرا ہونے والا ہے پر کیا ؟ وہ سوچنے سے قاصر تھی ۔۔۔

جب اسکو سکون نہیں ملا تو وہ تین چار نیند کی گولیاں لے کر وہیں پر سو گئی ۔۔۔۔۔

______________________________________

کالی گہری سیاہ رات میں دور آسمان میں چمکتے چاند کی روشنی اس اندھیرے کو ختم کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی ہر جگہ خاموشی کا راج تھا ہر جانب اندھیرا خاموشی اور اس خاموشی کو چیرتی کتوں کے بھوکنے کی آوازیں لگاتار بڑھتی جا رہی تھی ۔۔

وہ ایک دم جھٹکے سے اٹھی سانسیں پھولنے لگی تھی وہ لمبے لمبے سانس لیتی اندھیرے میں کچھ تلاش کرنے لگی لیکن اسکو کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا تو وہ بیڈ سے اٹھنے ہی لگی تھی جب اُسکا ہاتھ کسی نے اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔

وہ اپنے ہاتھ کو کسی گرفت میں محسوس کرتی ایک دم گھبرا گئی ماتھے پر ننھی ننھی پسینے کی بوندیں چمکنے لگی تھی کھڑکی سے آتی ہلکی سی چاند کی روشنی میں وہ بوندیں خوب چمک رہی تھی ۔۔۔

وہ پلٹ کے دیکھنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہیں کر پائی دیکھنے کی اسکو پہلا خیال جو آیا تھا وہ تھا 

سعد احمد کا .... 

"اور یہ ہی خیال جان لیوا تھا اُسکے لیے وہ گھبراتے ہوئے بولنے کی کوشش کر نے لگی تھی لیکن آواز تھی کہ حلق سے ہی نہیں نکل رہی تھی بڑی مشکل سے وہ بولنے کی ہمت کر پائی تھی ۔۔۔

" ک ک کون ہے ؟ چ چھوڑو میرا ہاتھ ، ت ت تُم کون ہو ؟ اُسکے حلق سے اٹک اٹک کر آواز بمشکل ہی نکل رہی تھی ۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگا تُم وہاں سے آ جاؤ گی تو میں تمہیں ڈھونڈ نہیں پاؤں گا ؟ میں سعد احمد ہوں جہاں سے تمہاری سوچ چھوڑنا سوچتی ہے نہ وہاں سے میں سوچنا شروع کرتا ہوں ۔۔۔

"مچھلی ہاتھ میں آ جائے اور میں اسکو کھانا نہ بناؤں یہ تو بہت بڑی بیوقوفی ہوئی نہ ؟ 

سعد صاحب نے یہ کہتے ساتھ ہی اُس کا ہاتھ اپنی طرف خیچا تو ایک دم پیچھے کی طرف بیڈ پر جا گری تھی ۔۔۔

"آں ں ں !! وہ چلّا ہی تو گئی تھی رات کے اس پہر ہلکی آواز بھی بہت تیز گونجتی ہے پھر یہ تو چیخنے چلانے کی آواز تھی ۔۔۔

" شی شششش !! اس چیخ کا گلا سعد صاحب نے گھونٹا تھا اپنا ہاتھ رکھ کر 

"بلکل چپ ایک آواز بھی نہیں ورنہ تم جانتی ہو میں کیا کر سکتا ہوں ؟ اب وہ آہستہ لیکن غصے سے گرّائے تھے۔۔۔

اور پھر اپنا ہاتھ اُسکے منہ پر سے ہٹایا تھا ۔ 
ہاتھ کے ہٹتے ہی وہ روتے ہوئے فریاد کرنے لگی پر سامنے والے پر اُسکا کوئی اثر نہیں ہوا ہوتا بھی کیوں انسان ہوتا تو کُچّھ اثر ہوتا یہ تو انسان کے نام پر حیوان تھا ۔۔۔

" پ پلیز ن نہیں !! 

وہ روتے ہوئے خوف زدہ لحظے میں بولی ۔۔۔۔

اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا ظاہری بھی اور ذہنی بھی ہر سوں تاریکی چھائی جا رہی تھی اور اس تاریکی میں اُسکی گھٹی گھٹی سسکیاں بھی اس تاریکی کا حصہ بن رہی تھی ۔۔۔۔

______________________________________

رات کے بارہ ہو رہے تھے کالی سیاہ رات میں چمکتے چند کی روشنی میں ایک وجود چلتا ہوا ایک گھر کے سامنے رُکا آس پاس نظریں دوڑاتا ہوا اُس نے آہستہ آہستہ سے گیٹ کھولا ، پھر سے اُسنے ایک نظر اپنے پیچھے پلٹ کر دیکھا تھا ہے طرف سے تسلّی کرتے ہوئے وہ اندر کی طرف بڑھ گیا لان میں آ کر اُس نے اپنے موبائل کی ٹورچ آن کی تھی اور پھر چاروں جانب دیکھ کر محتاط انداز میں کچن کی لان میں کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھ گیا 

وہ کچن کی کھڑکی کے پاس آ کر رُکا ہلکے سے کھڑکی کو کھولا تو وہ آسانی سے اندر کی طرف کھلتی چلی گئی تھی ۔۔ 

وہ شکر ادا کرتا ہوا کھڑی سے اندر کی جانب کود گیا ، اندر قدم رکھتے ہی اُسکی بلکل گھپ اندھیرا ملا تھا اب اُسکی کچھ بھی نہیں دکھ رہا تھا اور وہ ٹارچ جلا نہیں سکتا تھا ۔۔

اے میرے رب اتنا اندھیرا ..!!! وہ اپنی آنکھوں بند کرتے کھولتے ہوئے خود سے ہی بڑبڑایا ٹارچ جلانے کا خطرہ وہ مول نہیں لے سکتا تھا۔۔

"کیا کروں کیا کروں ؟؟ وہ سوچتا رہا سوچتا رہا جب اُسکی نظر چاند کی روشنی میں نہائے ہوئے لائٹر پر گئی تھی وہ جلدی سے آگے کو بڑھا تھا اور لائٹر کو اٹھاتے ہوئے تصوّر میں اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئی اُسنے لائٹر جلایا ۔۔۔ 

اب لائٹر کی روشنی اتنی تھی کہ وہ آسانی سے اپنے قدم آگے رکھ سکتا تھا وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا تبھی اسکو کسی نا مانوس آواز میں کسی لڑکی کی چلّانے کی آواز سنائی دی تھی ۔۔۔

وہ ایک دم وہیں کہ وہیں رک گیا اور آواز کے تعاقب میں دیکھا ۔۔

" یہ آواز کیسی تھی ؟ خود سے ہی پوچھا گیا .... "آواز تو یہیں اس طرف سے ہی آ رہی ہے " ... اُس نے سوچا ۔۔

"چل دیکھتے ہے "....وہ اب آگے کی طرف بڑھ گیا تھا وہ لاؤنج اور کچن کے درمیان میں تھا جب اسکو گھٹی گھٹی سسکیاں سنائی دی تھی ۔۔
اور پھر ایک دن سے ہر جگہ خاموشی برپا ہو گئی تھی۔۔۔۔
______________________________________

"آج میں اپنے شکار کو یوں ہی نہیں جانے دوں گا یہ کہتے ساتھ ہی وہ جيرش کی طرف بڑھے اس نے اپنے آس پاس بچانے کے لیے اندھیرے میں کچھ تلاش میں ہاتھ مارا اور یہ اللّٰہ کا رحم تھا کہ اُسکے ہاتھ میں کُچّھ نوکیلی سی چیز لگی تھی اُسنے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے نزدیک آتے اس ادھیڑ عمر شخص کے پیٹ میں خوب تیزی سے چبھا ڈالی ۔۔
آہ ہ ہ ..... !!!
ایک دم وہ پیچھے کو ہٹتا ہوا اپنے پیٹ کو پکڑ کر بیٹھ گیا تھا اور اس موقع کہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس نے جلدی سے باہر کو دوڑ لگا دی ۔۔
وہ ابھی لاؤنج میں ہی آئی تھی کہ اُسکی ٹکّر کسی سے ہوئی تھی ٹکّر لگتے ہی اُسکی آنکھیں چکرانے لگی تھی زبان سے ایک چیخ بلند ہوئی اور وہیں بیہوش ہو کر گر گئی تھی۔۔۔
______________________________________
وہ اب صحیح معنوں میں پریشان ہو گیا تھا جہاں ٹک وہ جانتا تھا یہاں جيرش کے علاوہ کوئی اور نہیں رہتا تھا ۔۔۔

"پھر یہ سسکیوں کی آواز کس کی تھی؟ وہ سوچنے پر مجبور تھا اسکو یوں ہی سوچتے ہوئے پانچ منٹ ہو گئے تھے لیکن سوچ تھی کہ بڑھتی ہے جا رہی تھی ۔۔۔
تبھی گیٹ کھلنے کی آواز آئی تھی اور پھر کسی کے قدموں کی آواز اسکو محسوس ہوئی وہ چھپنے کے لئے جیسے ہی لاؤنج کی طرف بھاگا تھا کہ ....... کسی سے اُسکی بہت تیز ٹکّر ہوئی اور ایک چیخ کے ساتھ وہیں پر بیہوش ہو گئی تھی ۔۔ 
وہ بہت زیادہ گھبرا گیا کیونکہ کبھی ایسا اُسکے ساتھ نہیں ہوا تھا اور آج ہوا تو اُسکے ہاتھ پیر ہی پھول گئے تھے۔۔
"یا اللہ یہ یہ کیا ؟ وہ آسمان نہیں نہیں گھر کی چھت کی طرف دیکھتا ہوا اللّٰہ کو یاد کرنے لگا تھا اپنا چہرے پر رونے صورت بناتے ہوئے وہ اُس نا دکھنے والے وجود کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کنڈیشن اُسکی ایسی تھی کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھ تھا۔۔

"اللہ تعالیٰ میری ہیلپ کر دیں پلزّز پھر کبھی نہیں سوچوں گا ایسی حرکت میں بارے میں سوچنا تو دور ، دور دور تک ذہن میں بھی نہیں لاؤں گا بسس اب میری ہیلپ کر دیں پلز !! وہ ہاتھ جوڑے چھت کی طرف دیکھتے بڑبڑایا تھا ۔۔۔

"اللہ جی دیکھو میں دس بار استغفِرُاللہ بھی پڑھوں گا جو آپ کہے گے وہ بھی کروں گا دس روپے مسجد میں بھی دے دوں گا پلز میری ہیلپ کر دو وہ اللّٰہ سے بلکل ایسے بات کر رہا تھا جیسے چھوٹا بچہ اپنی ضد کرتا ہے اپنی ماں سے اور ماں بچے کو دیکھ کر اُسکی باتوں کو سن کر مسکرا کے اُسکی بات مان لیتی ہے ایسے ہی وہ بھی اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہا تھا اور  اللہ تعالی نے اُسکی سن لے تھی۔۔

سچی ایسی حرکتیں ہم کرتے ہے اور پھر انہی حرکتوں پر ہم ہنستے بھی ہے کتنا سوہنا رب ہے نہ ہمارا ..؟؟مطلب اپنے بندے کی ان حرکتوں پر ضرور مسکراتا ہوگا کہتا ہوگا کہ بھئی دیکھو یہ ہے میرا نا سمجھ بندہ کتنی جلدی گھبرا گیا ہے کتنا خوف ہے اس میں میرے حوالے سے میں ضرور اسکی ہیلپ کروں گا اور ضرور اسکی یہ مُشکلات کو ختم کر اسکی دعا پر کن بول دوں گا ۔۔۔

ماشاءاللہ ....!! 

پھر ایک دم سے اُسنے اپنی پینٹ کی جیب میں سے موبائل نکال کر ٹارچ آن کی تھی اور اس وجود پر روشنی ڈالی یہ کوئی لڑکی تھی دھیرے دھیرے پیروں کی طرف سے چہرے کے جانب کا سفر کیا تو اسکو ایک دم شاکد لگا تھا وہ اور کوئی نہیں بلکہ جيرش تھی وہ ایک دم سے اُسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر موبائل کو فرش پر رکھا تھا اور جھکتے ہوئے اُسکے چہرے کو ٹھپ ٹھپانے لگا تھا پہلا لفظ جو زبان سے نکلا تھا وہ تھا گڑیاں ..

" گڑیاں آنکھیں کھولو پلز میری جان آنکھیں کھولو ...!! اُسکے ہاتھ کانپ رہے تھے زبان بھی لڑکھڑانے لگی تھی جبکہ چہرا دودھ کے مانند سفید پڑ گیا تھا۔۔۔۔

آنکھوں سے آنسوں بیختیار بہنےلگے اسکو یہ وجود ایک دوسری ہی دنیا میں لے گیا ۔۔۔
وہیں چیخنے چلانے کی آوازیں وہیں گرتا پڑتا وجود اسکو اپنا وجود زمین میں دھنستا محسوس ہوا ۔۔۔
چہرے پر پسینہ ہی پسینہ تھا پورا وجود پسینے میں نہا گیا تھا ۔۔۔

ہوش میں وہ کسی کی آواز اور آیا اُسنے نظریں اٹھا کر دیکھا گیٹ کے درمیان سے ابھرتی کسی ادھیڑ عمر شخص کی پڑچھای تھی وہ ۔۔۔۔

" کہاں بچ کر جائے گی .... ہاں آج تُو نہیں بچے گی مُجھسے ... "تیری ماں سے تُجھے ایسے ہی نہیں لانے کو کہا تھا میں نے اور وہ بیچاری سوچ رہی ہوگی کہ میں تیری فکر کرتا ہوں مجھے تیری پرواہ ہے اسکو کیا پتہ کہ مجھے تیری وجود کی چاہ ہے " ہاہاہا ہاہاہا ..... !! 

وہ شخص اپنی یہ بیہودہ باتوں کو بول کر ہنسا تھا جبکہ اسکو یہ سننا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُسکے کانوں میں تیز گرم پگھلتا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو ۔۔۔

اسکو یہ آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی پر ابھی اتنا سوچنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ سوچ سکتا ۔۔

وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور لاؤنج کی لائٹ کا بٹن تلاشتے ہوئے آن کر دی تھی۔۔۔۔

پورا لاؤنج روشنی سے نہا گیا تھا درمیان میں بیہوش پڑا جیرش کا وجود ، دوسری طرف وہ شخص کھڑا ایک دم سے روشنی آنکھوں پر پڑنے کی وجہ سے اُسکی آنکھیں۔ چندھیا گئی تھی ۔۔۔

وہ آنکھیں مسلتے ہوئے اُس نے اُس شخص کی طرف دیکھا تھا سامنے کھڑے اُس شخص کو دیکھتے ہی اُسکے پیروں سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔

اسکو یقین نہیں ہو رہا تھا اُسنے ایک دم سے آنکھیں زور سے موندھی اور پھر کھولی لیکن جو حقیقت تھی وہ تو تھی کون جھٹلا سکتا تھا اسکو ۔۔۔
آپ ..... !! بس وہ اتنا ہی بولا ۔۔۔
پھر کے دم سے جيرش کا خیال آتے ہی وہ اُسکی طرف لپکا ، اسکو باہوں میں بھرتا باہر کو بھاگا تھا۔۔۔۔

______________________________________

ایک نئی صبح طلوع ہو چکی تھی افق پر سورج کی روشنی نے نیا اُجالا کیا تھا آسمان میں چہچہاتے پنچھی اپنی نئی اڑان بھر رہے تھے ۔۔

کھڑکی سے آتی سورج کی نارنجی کرنیں جب اُسکے چہرے پر پڑی تو وہ ہلکا سا کسمسائی اور آنکھوں کو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسنے آنکھیں بند کر کے کھولی تھی اُسکے سر ایک دم بھاری ہوا تھا وہ کرّاہ کر رہ گئی ۔۔۔

"آہ ہ ہ ہ ...!
سارہ جو ابھی ابھی سوئی تھی اُسکی آواز پر وہ جلدی سے اٹھی تھی اور فکرمندی سے جيرش کی طرف بڑھی۔۔۔
"جیری میری جان !! ٹھیک بھی ہو تُم وہ اسکو سہارا دیتے ہوئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بٹھایا اور پھر اُسکی طرف پانی بڑھا تھا۔۔۔جيرش نے تھوڑا سہ پانی پی کر بیڈ کراؤن سے سر لگا کر آنکھیں موند لیں تھی۔۔۔

وہ بس خاموش تھی بلکل خاموش اسکو نہیں پتہ تھا وہ یہاں تک کیسے آئی ہے کون اسکو لایا ہے..؟ ، اسکو صرف اتنا معلوم تھا کہ آج وہ رسوا ہوتے ہوئے بچی آج اُسکی زندگی اُسکی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچی ہے آج وہ کسی سے نظریں ملانے لائق نہیں رہی اس دن سے وہ ڈرتی تھی اور اس ڈر کی وجہ سے وہ وہاں سے نکل کر آئی تھی لیکن جو قسمت میں ہونا تھا اسکو کوئی بدل نہیں سکتا تھا اور وہ ہونے والا تھا لیکن شائد اُسکے رب کو اُس پر رحم آ گیا  اور وہ بچا لی گئی تھی ۔۔۔۔

سارہ سے اُسکی خاموشی سے بےچین ہو رہی تھی اُس سے اپنی دوست کی یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی لیکن اس وقت جو حالت جيرش کی تھی وہ چاہ کر بھی نہیں پوچھ پائی ۔۔۔۔
ایک دم سے جيرش پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اُسکی چیخیں پورے روم میں گونج رہی تھی سارہ اُسکے یوں رونے پر بوکھلا گئی ۔۔

"میں میں مرنا چاہتی ہوں میں نہیں چاہتی زندہ رہنا مجھے اپنے وجود سے خود سے نفرت ہے اس شکل سے نفرت ہے وہ اپنے بالوں کو خیچھتی کبھی اپنے چہرے کو نوچنے کی کوشش کرتی تو کبھی اپنے ہاتھوں کو بیڈ پر زور زور سے مارنے لگتی وہ اپنے ہوش میں نہیں تھی اور سارہ اُسکی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئی تھی ۔۔۔

"سارہ و وہ شخص پھر آئے گا و وہ میری عزت وہ یہ بول کر زاروں قطار اپنا چہرا ہاتھوں سے چھپا کر رونے لگی ۔۔۔۔

اور پھر ایک دم بیہوش ہو گئی تھی سارہ کی تو مانو جان ہی نکل گئی تھی ، جیری جیری ...! اٹھو پلز ز یار دیکھ وہ بھی رونے لگی ۔۔۔

شایان جو باہر سے کچھ ناشتے کے لیے سامان لینے گیا تھا سارہ کی آواز کو سوں کر جلدی سے روم میں آیا ۔۔۔ روم کی حالت اور پھر سارہ کا رونا اور جیری کا نڈھال پڑا بیہوش وجود اُسکی ساری داستان بیان کر گیا تھا ۔

وہ سامان کو وہیں پھینکتا ہوا جیری کی طرف بڑھا اور زور زور سے اُسکا چہرا ٹھپ تھپانے لگا ۔۔۔
"جیری جیری ... !! سارہ کیا ہوا ابھی تو سو رہی تھی نہ ؟ اُسنے سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

"سارہ نے روتے ہوئے اسکو سب کُچّھ بتا دیا تھا جبکہ اُسکے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی تھی ۔۔۔

" اچھا کچھ نہیں ہوگا تُم فکر مت کرو انشاءاللہ ہم سب ہے نہ ،  میں ابھی ڈاکٹر کو بلاتا ہوں ،وہ سارہ کو تسلّی دیتا ہوا روم سے باہر نکل گیا تھا اور پھر اُسنے ڈاکٹر کو کال کر کے آنے کو کہا تھا ۔۔۔۔

جب تک ڈاکٹر نہیں ایا وہ بے چینی سے یوں ہی روم کے چکّر کاٹتا رہا 
باہر دروازے پر بیل بجی تو وہ جلدی سے گیٹ کی طرف گیا اور دروازہ کھولتے ہوئے ڈاکٹر کو اپنے ساتھ لے کر روم میں ایا ۔۔۔
ڈاکٹر نے جيرش کو چیک کرتے ہوئی شایان کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔۔
" شایان صاحب ویسے یہ بیہوش کسی اسٹریس کی وجہ سے ہوئی ہے اور انکو بی پی کی پروبلم ہے ہو سکے تو انکو ہر ٹینشن سے دور رکھنے کی پوری کوشش کریں کوئی بات کو لے کر یہ بہت زیادہ خوف زدہ ہے ۔ ابھی میں کچھ ٹیبلٹ لکھ دیتا ہوں اور آپ انکو دے دینا اور ہاں میں نے انکو نیند کا انجکشن  لگا دیا یہ جیتنا سوئے گی انکے لیے بہتر ہوگا۔۔۔ ڈاکٹر جا چکا تھا شایان تھکے ہارے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا ایک گہری سوچ اُس پر طاری تھی ۔۔۔۔
"کیا شایان جيرش روہیل خان کا ساتھ دے گا ؟  
کیا یہ شایان کی کوئی سازش ہے؟ 
کون جانتا تھا یہ تقدیر کے کھیل کس کے ساتھ کیا ہوگا کیا نہیں یہ تو تقدیر ہی بتہ سکتی تھی ۔۔۔
________________💔💔💔______________

انسان کو وقت کی مار سب کچھ سیکھا دیتی ہے جب زندگی میں کوئی اپنا نہیں رہتا تو راستہ زندگی بنا دیتی ہے پھر وہ راستہ اچھا ہو یا بُرا کچھ نہیں پتہ ہوتا بس پتہ ہوتا ہے تو یہ کہ اسکو اس معاشرے سے بہت درد ملے ہے اپنوں کے روپ میں ایسے آستین کے سانپ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ کوئی پہچان بھی نہیں پاتا ۔۔۔
آج ایک ہفتے بعد وہ یونی میں آئی تھی خود کو وہ بہت سمبھال چکی تھی ۔۔
اُسنے جیسے ہی پہلا قدم یونی میں رکھا تو سب اسکو ہی بہت عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے تھے بہت سے تو برے برے الفاظ بھی نکل رہے تھے اُسکی ذات کے حوالے سے 
"یار یہ تو وہی لڑکی ہے نہ ؟ کسی لڑکی نے اپنی دوست کو کہا تھا اشارہ کر کے دوسری لڑکی نے اُسکی سر تا پا دیکھا تھا اور پھر بولی " ہممم یار یہ وہی لڑکی ہے دیکھنے میں خوبصورت بھی ہے اور معصوم بھی یار جتنی یہ دیکھنے میں معصوم ہے لیکن اس کے کام تو دیکھو مطلب اتنی عمر اپنے باپ کی عمر .... ! وہ لڑکی اسکو عجیب نظروں سے دیکھتی لفظ کسائی کر رہی تھی ۔۔۔ وہ اُنکی بات پر ٹھٹھک کر رکی تھی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے ، وہ انکو نظر انداز کرتے آگے بڑھنے لگی جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی اُسکی ذات کے حوالے سے پوری یونی اُس پر چہ میگوئیاں کر رہی تھی ۔۔ تبھی ایک گاڑی کی آواز اسکو سنائی دی تھی سب ایک دم سے اُس گاڑی کی طرف متوجہ ہوئے وہ جھٹکے سے ایک طرف ہوئی تھی ورنہ ہو گاڑی کی سپیڈ تھی اسمیں کوئی بیر نہیں تھی کہ وہ گاڑی اسکو کچل آگے بڑھ جاتی ۔۔ اُسکے یوں ڈر کر ایک طرف ہونے پر کچھ سٹوڈنٹ خوب ہنس رہے تھے اور وہ بس خاموشی سے اپنے ضبط کو ٹوٹنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

"اے اے دیکھو آج ہماری یونی میں کو ایا ہے ؟ ایک لڑکی نے گاڑی سے نکلنے والی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ایک لڑکی کو کہا ، اور اُسکے کہنے اور اُس لڑکی نے گاڑی کی جانب دیکھا اُسکے ساتھ ہی جيرش نے بھی اُسکے تعاقب میں دیکھا جو دیکھا تھا وہ خوف سے خود میں سمٹ گئی تھی ، ڈر خوف اُس اور اتنا طاری تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ پائی تھی ۔۔۔۔۔
_______________💔💔💔💔_____________

شایان بہت دیر سے جیری کا انتظار کر رہا تھا آج جیری آئے گی یہ اطلاع سارہ نے اسکو فون پر دے دی تھی  اب وہ گراؤنڈ میں بیٹھا اُسکا انتظار کے رہا تھا ۔۔
تبھی اسکو گیٹ سے اندر اتے جیری دکھائی دی وہ جلدی سے کھڑا ہوتے اُسکی طرف بڑھا ابھی وہ کچھ دور ہی تھا جب ایک گاڑی جيرش کے برابر سے نکلتی ہوئی آگے بڑھ گئی اسکو بہت غصّہ آیا تھا اس گاڑی والے پر اور وہ کئی گالیوں سے دل ہی دل میں دے بھی چکا تھا ۔۔۔
وہ سب دیکھ رہا تھا سب اسکو نظر بھی آ رہا تھا کل سے جو جيرش کے حوالے سے وہ یونی میں چہ میگوئیاں سن رہا تھا اُسکے لیے یہ نا قابلِ برداشت تھی لیکن وہ ابھی کُچھ نہیں کر سکتا تھا تحمّل سے کام لیتے ہوئے وہ آگے ہی بڑھا تھا جب وہ گاڑی سے نکلنے والی شخصیت کو دیکھ کر ٹھٹھکا ہاں شایان خان نے سعد احمد کو گاڑی سے نکلتے دیکھا اور پھر جیری کی طرف ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئے تھے ۔۔۔ اور یہ سب شایان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یہ سب دیکھ کر اُسکے دل میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔۔۔
" تیری تو ...؟ وہ اس سے پہلے اپنے قدم بڑھاتا کہ پیچھے سے کسی نے اسکو پکارتے ہوئے اُسے کندھوں سے پکڑا ۔۔ وہ وہیں رک گیا اور حیرانی سے پیچھے پلٹ کر دیکھا "سمعان ...!! زیر لب بڑ بڑایا ..... "کہاں جا رہے تھے ؟ سمعان نے اُسکی حیران نظروں سے جانچتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"ک کہیں بھی نہیں ؟ اُس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا تھا۔۔۔"یہ آج ہماری یونی میں کو ایا ہے ؟ سمعان نے شایان سے پوچھا اُسکے اس سوال پر اُسکے چہرے کا رنگ فکا پڑ گیا تھا .. جو سمعان کی نظروں سے اُسجھل نہیں رہا تھا۔۔۔

" کیا ہوا تمہارا چہرا کیوں سفید پڑ گیا ہے..؟ میں نے کوئی اتنا ہارڈ سوال تو نہیں پوچھا جو تمہیں سمجھ ہی نہیں آیا ہو سمعان آنکھیں سکیڑ کر اُسکی دیکھنے لگا اور وہ اُسکی نظروں سے بچنے کے لیے ایک دم پلٹا...

سمعان کو لگا کہ یہ ابھی بھی اُس سے ناراض ہے تو وہ اُسکی ناراضگی کو سمجھتے ہوئے کچھ نہیں بولا تھا بس اپنے سوالنکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔

اُسنے پلٹ کر سب سے پہلے گاڑی کی طرف دیکھ  جہاں کوئی بھی نہیں تھا اب .... ایک لمبی سانس اُسنے لی تھی اور دور خود کو کمپوز کرتے ہوئے اُسنے موبائل جیب سے نکال کر اُسکی طرف پلٹا اور اسکو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

" آ گئی اس بےشرم دوست کی یاد ؟ انداز طنزیہ تھا اُسکا ۔۔۔

اُسکے یوں طنز پر سمعان کو بہت شرمندگی محسوس ہوئی تھی... ہوتی بھی کیوں نہ ..!! آخر کو غلطی بھی سمعان کی ہی تھی اُسکی بولنے کہ موقع دیے بغیر اسکو اُسنے مارا تھا اور پھر خود ہی تین چار دن اسکو اگنور بھی کرتا رہا تھا ۔۔۔ جبکہ وہ بیچارہ اپنی اور جيرش کے غصّہ ہونے والا واقعہ بتا چکا تھا۔۔۔
" یار اب ایسا تو مت بول ؟ وہ شرمندہ سا اُسسے بول رہا تھا جبکہ شایان مصنوعی غصّہ میں موبائل پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے اُسنے سمعان کی طرف غصّے سے دیکھا اور بھڑکتے ہوئے گرّایا ۔

" اور کیسا بولوں ؟ چل بتا کیسے بولوں ؟  ہاں ..!!
صحیح معائنوں میں اب وہ غصّے سے چیخ ہی اٹھا تھا ۔۔۔

______________💔💔😔💔💔___________
Guy's mein ne sneak peek part mein kuch aur cast ka ijafa kiya hai jaaye jaldi se dekhey aur apne piyare piyre reviews dein....
💖💖💖✌️✌️✌️✌️✌️💖💖💖💖💖

So guy's jldi se jaye epi 6 read kro ...
Do Vote share n ur reviews  
Comment box mein jroor btana aaj ka epi kaisa lga. .
Mujhe intezaar rahe ga aapke reviews ka..  


   0
0 Comments